Ticker

6/recent/ticker-posts

وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ

 وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ

اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ


ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ

میرؔ دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ


اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں

طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ


اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ

چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ


ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں

اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ


شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا

ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ


ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں

لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ


جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فرازؔ

سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ


‏احمد فراز

Post a Comment

0 Comments