Ticker

6/recent/ticker-posts

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے




 شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

چھو گیا تھا کبھی اس جسم کو اک شعلۂ درد

آج تک خاک سے اڑتے ہیں شرارے جیسے

حوصلے دیتا ہے یہ ابر گریزاں کیا کیا
زندہ ہوں دشت میں ہم اس کے سہارے جیسے

سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہوگا
ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں تمہارے جیسے
دیدنی ہے مجھے سینے سے لگانا اس کا
اپنے شانوں سے کوئی بوجھ اتارے جیسے
اب جو چمکا ہے یہ خنجر تو خیال آتا ہے
تجھ کو دیکھا ہو کبھی نہر کنارے جیسے
اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں
دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

عرفان صدیقی

Post a Comment

0 Comments