
کارواں سرائے میں، کس کا یہ پڑاؤ ہے
شوق کا سفر شاید، راس آ نہیں پایا
لٹ گیا ہے رستے میں، آرزو کا سرمایہ
دور منزل آمید راستہ بھی بے سایہ
اک تھکن کہ اب یہ بھی ، کارواں میں شامل ہے
ایک چبھن کہ رستے میں، خار بن کے حائل ہے
روح بھی شکستہ ہے، عضو عضو گھائل ہے
کاروان سرائے میں، کس کا یہ پڑائو ہے
ہم نے اب سے پہلے بھی، ایسے کارواں دیکھے
بے مراد منزل تھے، نامراد ساحل تھے
گرد گرد جسموں پہ، خواب خواب چہرے تھے
شوق کا سفر کیا تھا ، دائرے میں پھیرے تھے
عشق کی مسافت میں، بس یہی تو ہوتا ہے
" کوئی خاک کرتا ہے، کوئی خاک ہوتا ہے“
0 Comments