Ticker

6/recent/ticker-posts

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

 تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے


پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے


پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا


اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے


کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے


اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے


اے یاد یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں


اے درد ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے


سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحان شہر


پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے


اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کہ ہم


اب کے گئے تو کوئے ستم گر کے ہو گئے


روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فرازؔ تم


دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے


احمد فراز

Post a Comment

0 Comments